آخری شمع جلا رہا ہوں
آخری شمع جلا رہا ہوں
خود کو زندہ بچا رہا ہوں
روز لگاتا ہوں ہونٹوں سے سگریٹ
میں کسی لمس کی تاثیر مٹا رہا ہوں
اسکو پسند ہے شاعری بہت
میں اپنی قسمت آزما رہاہوں
رنگ اڑا کہ خوشبوئیں سبھی چھین لی گئیں
اب اکتا کہ میں سبھی تتلیاں اڑا رہا ہوں
ایک تحریر لکھی تھی دل کے دروازے پر
کوئی اب اندر نہ آسکے اس لئے مِٹا رہا ہوں
پوچھتے ہیں وہ کہ میاں طلحہ ہیں؟
نہیں وہ مر گئے ہیں تب ہی تو تالا لگا رہا ہوں
حشر میں کیسے دیں گے ثبوت اُمتی ہونے کا
یہ بات سوچ کہ زمین میں گڑا جا رہا ہوں
مصلے سے آئی آواز، آ آکہ ہم پر احسان کر
میں نماز پڑھنے جو تاخیر سے جا رہا ہوں
ہوں خوددار،فاقہ کش بھی ہوں،سوشرمندگی سے
خود سمیت اپنے بچوں کو جلا رہا ہوں