غزل
اپنی فطرت میں سازشیں رکھنا
وقت جیسی نہ حرکتیں رکھنا
زندگی کی وسیع ہتھیلی پر
کچھ ادھوری سی خواہشیں رکھنا
اسکی فطرت میں میں نے دیکھا ہے
ہر تعلق میں الجھنیں رکھنا
بس محبت ہی بانٹتے رہنا
دل میں قطعاً نہ نفرتیں رکھنا
تم محبت کی بات کرتے ہو
اسکو آیا نہ عزتیں رکھنا
راستے گر جدا جدا ہی ہیں
دل میں کیونکر یہ رنجشیں رکھنا
تھام کر راستوں کی انگلی کو
آنکھ میں اپنی منزلیں رکھنا
ساتھ تیرا ہے جب میسر تو
اور اب کیسی حسرتیں رکھنا
اریج نایاب