اک یاد وبال جان سی تھی تب
سرد ہوا کی شاموں میں
جب خنکی جسم کو کھاتی تھی
جب سڑک کناروں کی روشنی
دھند سے مدھم ہو جاتی تھی
جب دور سے آتا کوئی بشر
اک مبہم خیال سا لگتا تھا
جب شہر کے سارے کوچوں میں
خاموشی جشن مناتی تھی
اک یاد وبالِ جان سی تھی تب
اک صورت محض گمان سی تھی تب
جو سوچ کی ساری سمتوں سے
ذہن میں اترتی آتی تھی
اسی یاد کو سر میں بند کرکے
ساکت اک شخص تھا بیٹھا رہتا
یوں ہی تماشہ روز کا تھا تب
یوں ہی شام گزر جاتی تھی
یاسر محمود