اقرار برابر ہیں نہ انکار برابر
اقرار برابر ہیں نہ انکار برابر
میری سبھی باتیں اسے اخبار برابر
یوں دوری اے دنیا تو بجا دوری ہے لیکن
آنا یوں تصور میں ہے دیدار برابر
اپنوں سے لڑائی میں، میں پسپا ہوا خود ہی
گر جیت بھی ہوتی تو مجھے ہار برابر
ہونٹوں پہ ترے چپ کا کبھی قفل نہ ٹوٹے
اظہار کا مطلب ہوا دیوار برابر
موزوں بھی مبارک بھی مراحم بھی مہر بھی
وہ ایک اکیلا ہے مجھے چار برابر
کہنے کو تو الزام لگایا ہے زباں سے
لیکن یہ ضرر کاری ہے تلوار برابر
بے کار کو کیا پیر یا ہفتے کی پڑی ہے
ہر روز گزر جاتا ہے اتوار برابر
اب رشکِ قمر ،روگ ترے بس کا نہیں ہے
اب اور مسیحا ہے، تُو بے کار برابر
جانے تو خدا جانے کسی دل کی گزاری
باقی تو یہ چارہ ہے شبِ تار برابر
ایم آرساگر