جسمِ مضمحل کو احمد تھکن سلاتی ہے
جسمِ مضمحل کو احمدؔ تھکن سلاتی ہے
ورنہ دیدۂ نم کب تجھ کو نیند آتی ہے
چند دن کا جذبہ پل بھر میں مٹ ہی جاتا ہے
زندگی، ذرا بدلی، پھر وہی ہو جاتی ہے
نغمۂ خجستہ کا ورد آج دہراؤ
عمر پا شکستوں کے رو بہ رو پھر آتی ہے
زندگی کے کیا کہنے تیرگی میں ڈالے ہے
روز اک امیدِ رنگ آوری دکھاتی ہے
کیا ہوا جو قسمت کو آزمایا ہم نے
بارہا یہ قسمت بھی ہم کو آزماتی ہے
آج اک تنِ بے کس کشتۂ سحر ٹھہرا
سرخیِ شفق ہم کو برملا بتاتی ہے
ؔضوریز احمد
کیا ہی بات ہے