جسے بھولنا تھا اس کو نہ یکسر بھلا سکا
مری رسوائی کا قصہ نہ بازاروں میں آسکا
جسے بھولنا تھا اس کو نہ یکسر بھلا سکا
مجھ سے بُرا کسی کا بھی چاہا نہ جا سکا
دشمن کو بھی بچاؤں گا جب تک بچا سکا
خود کو گرا تو دوں گا، میں جتنا گرا سکا
لیکن نہ اتنا بوجھ اگر تو اٹھا سکا
سوئے ہوئے جگانے سے جاگ اٹھتے ہیں مگر
میں جاگتے ہوؤں کو نہ لیکن جگا سکا
منصف یہ جانتا تھا کہ میں بے قصور ہوں
لیکن میں اپنے سچ کی شہادت نہ لا سکا
اپنا میرا قصور ہے لوگوں سے کیا گلا
میں کیوں نہ اپنے آپ کو ویسا بنا سکا
دیجیئےضرور مجھ کو میرے جرم کی سزا
میں کیوں نہ آپ سے سچ کو چھپا سکا
میرے ہی حق میں یار میرے بولتے رہے
اس کے خلاف کوئی نہ آواز اٹھا سکا
کہتا تھا “ایسا ہونے نہیں دوں گا میں کبھی”
ایسا ہوا تو لب بھی نہیں میں ہلا سکا
خائف تھا اس قدر میں عدالت میں آ کے بھی
میں داستانِ ظلم نہ کھل کر سنا سکا
سرِ دشت عالم تخیل میں یہ دیکھا میں نے
پانی چل کر کیوں نہ کر بل میں آ سکا
دنیاوی جنگ جیت لی یزید نے مگر
وہ محبتِ حسینؑ نہ دلوں سے مٹا سکا
ہنس کر قبول خاک نشینی کو کر لیا
لیکن امیرِ شہر کے میں گن نہ گا سکا
اوقات اپنی کس طرح ظاہر کرے گا وہ
احسان ہی نہ اپنا اگر وہ جتا سکا
پرانا دوست مجھے خرد باختہ کہے ہے
جو حسن کی چالوں سے نہ خود کو بچا سکا
پہچانتا بھی سب سے زیادہ اسی کو ہوں
جو ایک شخص میری سمجھ میں نہ آ سکا
غیروں کی قید سے تو نکل آیا بچ کے میں
اپنوں کے ہاتھ سے نہیں خود کو چھڑا سکا
کل اک شخص کو جھوٹا دلاسہ دینے کے بعد
نہ جانے کیوں نہ خود سے میں نظریں ملا سکا
خون اپنا جلاتا رہوں گا اسی طرح
پتھر نہ اپنے آپ کو جب تک بنا سکا
تیرے ہاتھوں رسوائی کے بعد جاناں
میں قصہ رسوائی نہ کسی کو سنا سکا
وجہ رسوائی تھی تیری حسن پرستی طالب
کیوں نہ اس پری سے تو خود کو بچا سکا
احتشام طالب
Oh wow … Really very nice… Keep it up….
پہچانتا بھی سب سے ذیادہ اسی کو ہو
جو اک شخص میری سمجھ میں نہ آسکا۔۔۔