محمد شہزاد انجمؔ
پوری طرح سے تجھ کو جدا کر چکے ہیں ہم
اب فرقتوں کی رسم ادا کر چکے ہیں ہم
اک جان تھی جو جسم میں اک دل تھا سینے میں
“سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم”
اس بار کا غرورِ وفا خاک ہو گیا
اس بار ہر ستم کا گلہ کر چکے ہیں ہم
اب قربتوں کو لے کے تو کیا کرنے آیا ہے
اس قید سے یہ جسم رہا کر چکے ہیں ہم
اب لمسِ یار بھی یہاں بے مول جائے گا
رنج و الم کو اپنی قبا کر چکے ہیں ہم
تیری طرف ہے کیا یہ تو ہی جانے دلربا
اپنی طرف سے پوری وفا کر چکے ہیں ہم
wah, khoob