اُسامہ مُنیر
گلزار کو خزاں سے جدا کر چکے ہیں ہم
سوکھے ہوئے شجر کو ہرا کر چکے ہیں ہم
آسودگی کے تخم سے رنجش کے پھول تک
“سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم”
لغزش کے بعد ہوش میں آ کر پتہ چلا
کیا کام کرنے آئے تھے، کیا کر چکے ہیں ہم
یزداں کی بارگاہ میں منظور ہو نہ ہو
لیکن تمہارے حق میں دعا کر چکے ہیں ہم
اِس شہر میں منیؔر عداوت کا دور تھا
لیکن یہاں بھی عشق روا کر چکے ہیں ہم
واہ، خوبصورت ہے
بہت خوب
کمال کمال. بہت خوب
Nice✌️❤️
V.Good ❤️
بہت اچھے۔ عمدہ غزل ہے
Masha Allah kia khoobsat ghazal ha
Boht awla۔۔