ضوریز احمد
زخمِ بے مندمل کو ہرا کر چکے ہیں ہم
دیکھو یہ پیڑ اور گھنا کر چکے ہیں ہم
جس میں تمہاری چشمِ تغافل کی حبس تھی
اُس شہرِ دل پہ غم کی گھٹا کر چکے ہیں ہم
طوفانِ موج خیز سے اے ناخدا نہ ڈر
اب بادباں سپردِ خدا کر چکے ہیں ہم
آئی نہیں پیامِ بوئے یار کی خبر
ہر شمعِ روشناس ہوا کر چکے ہیں ہم
شامل ہے قتلِ گل کوئی مستِ حنا کا ہاتھ
تفتیشِ رنگِ دستِ صبا کر چکے ہیں ہم
ممکن نہ تھا اداسیِ تنہائی کا علاج
اپنی بساط بھر تو دوا کر چکے ہیں ہم
پھر ان کو اعتراضِ تہی دامنی ہے جب
“سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم “
بہت زبردست ہے، اور کمال ہے
Bht khoob MashaAllah ❤️❤️
Wah khoob
Kia kehne zuraiz❤
واہ بہت خوب
پہلا شعر دیکھا اور مسکائے۔۔۔ ہر الگ شعر پچھلے سے اوپر جاتا رہا۔ بہت خوبصورت۔
پہلا شعر دیکھا اور مسکائے۔۔۔ ہر اگلا شعر پچھلے سے اوپر جاتا رہا۔ بہت خوبصورت۔