طائرِ عشق کی فریاد ہوئے جاتے ہیں
طائرِ عشق کی فریاد ہوئے جاتے ہیں
ہم تیری قید سے آزاد ہوئے جاتے ہیں
سایۂ بام نہیں کیسے ہو مٹّی پہ قیام
آؤ ہم خانماں برباد ہوئے جاتے ہیں
جبر کرتے ہیں پرندوں پہ تو ہم ظالم ہیں
صبر کرتے ہیں تو صیّاد ہوئے جاتے ہیں
حوصلہ بھی ہے, تعیُّن ہے ہمارا ‘شیریں’
خواب لاچار ہیں ‘فرہاد’ ہوئے جاتے ہیں
لوگ خاموش ہیں اثبات و نفی کے مابین
قاضئ شہر ستم زاد ہوئے جاتے ہیں
سین (س) بھی اُنکو سخنور کا نہیں ہے معلوم
اور وہ ‘میر’ کے استاد ہوئے جاتے ہیں
آخری حرف تلک لوگ کہاں پہنچے ہیں
عشق کے این (ع) میں برباد ہوئے جاتے ہیں
روح کے زخم مِرے دل پہ ہیں موقوف ‘صریر’
یہ نئے درس ہمیں یاد ہوئے جاتے ہیں
صریر علی
واہ جی کیا کہنے جناب ✌
حُسنِ نظر ہے جی آپ کا۔ شکریہ ✌️
عشق کے ع میں برباد ہوے جاتے ہیں۔۔۔۔
Amzaing