تیرے عشق و محبّت پہ گماں رہا اکثر
تیرے عشق و محبّت پہ گماں رہا اکثر
رہا آشنا، پھر بھی بے زباں رہا اکثر
ناممکن کی تلاش میں ہی کھو گیا کہیں
زندگی میں ناجانے کہاں رہا اکثر
ہجر ہی ہجر رہا ہر سمت ، ہر چار سو
وصال میں بھی فراق کا سماں رہا اکثر
دیے یوں نفرت کرنے لگے مجھ سے
چراغوں کے لیے بھی ہوا رہا اکثر
وہ بھی نا رہ سکا احمدؔ سے جدا ہو کر
ہم بھی وہاں نہ رہے وہ جہاں رہا اکثر
شہریار احمدؔ