زندگی باقی ہے ،زخموں کی جلن باقی ہے
زندگی باقی ہے ،زخموں کی جلن باقی ہے
ہاں ابھی پہلی محبت کی تھکن باقی ہے
دل سے مردہ ہیں یہ محفل کو ہنسانے والے
ان کے دفنانے کو بس ایک کفن باقی ہے
روح چھنی ہے تیرے لہجے کی تلواروں سے
دل سے لپٹا ہوا اک خاک بدن باقی ہے
منتیں ،نالہ وفریاد ،تہجد کی نماز
بعد ان کے بھی کوئی اور جتن باقی ہے؟
نہ وہ بلبل نہ وہ پھولوں کی مہک ہے لیکن
حوصلہ اے دل مضطر کہ چمن باقی ہے
ؔیوں تو ہر چیز بدل ڈالی ہے گھر کی طارق
سانس لیتا ہوں تو لگتا ہے گھٹن باقی ہے
ؔفہیم طارق