اک اندھیرا سا میری ذات پہ چھایا ہوا ہے
اک اندھیرا سا میری ذات پہ چھایا ہوا ہے
کئی دہائیوں سے تیرے غم نے ستایا ہوا ہے
یہ مسئلہ بھی ہے در پیش,تمھارے بعد ہمیں
لوگ کہتے ہیں پری زاد کا ٹھکرایا ہوا ہے
زخم پھر ہونے لگے تازہ پرانے والے
مجھکو لگتا ہے وہ شہر میں آیا ہوا ہے
جو گیا،سو گیا ،چھوڑ دے اب اس کا خیال
تو نے اس شخص کو مسئلہ ہی بنایا ہوا ہے
وہ شخص ہاتھ ملانے کے بھی نہیں قابل
تو نے بے وجہ اسے دل میں بسایا ہوا ہے
ہجر بہتا ہے لہو بن کہ رگوں میں طارق
ہم نے اس دل کو محبت میں لگایا ہوا ہے
فہیم طارق
Superb
ہر شعر خوبصورت ہے!